ابدی بندھن: لڑکا اور پانڈا
ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس گھنے جنگل کے کنارے ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام ایان تھا۔ ایان کو جنگل میں گھومنا، پرندوں کی آوازیں سننا اور لمبے درختوں کو دیکھنا بہت پسند تھا۔ ایک دن وہ اپنے معمول سے زیادہ دور جنگل میں جا پہنچا۔ اچانک، اس نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا—ایک چھوٹا پانڈا بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، اداس اور تنہا۔
ایان آہستہ سے پانڈا کے قریب آیا۔ پانڈا نے اپنے بڑے معصوم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا، اور ایان کا دل پگھل گیا۔ اسے لگا کہ شاید یہ پانڈا گم ہو گیا ہے۔ ایان نے نرمی سے کہا، “کیا تم گم ہو گئے ہو؟”
پانڈا نے ایسے سر ہلایا جیسے وہ ایان کی بات سمجھ گیا ہو۔ ایان نے اس کے قریب بیٹھ کر کہا، “فکر نہ کرو، میں تمہیں تمہاری فیملی تک پہنچا دوں گا۔”
پھر وہ دونوں ساتھ مل کر جنگل میں پانڈا کی فیملی کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ وہ دریا عبور کیے، چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں چڑھیں، اور بانس کے راستوں کا پیچھا کیا۔ راستے میں وہ بہترین دوست بن گئے۔ ایان نے پانڈا کے ساتھ اپنا کھانا شیئر کیا، اور پانڈا نے اسے جنگل کے پوشیدہ راستے دکھائے۔
کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد، وہ پانڈا کے خاندان کو ایک گھنے بانس کے جنگل میں مل گئے۔ پانڈا کی ماں اپنے بچے کو گلے لگانے کے لیے دوڑی، اور پورا پانڈا خاندان ایان کو مسکراہٹوں کے ساتھ خوش آمدید کہنے لگا۔
رخصت ہونے سے پہلے، ایان نے چھوٹے پانڈا کو دیکھا اور کہا، “تم ہمیشہ میرے دوست رہو گے۔” پانڈا نے ایان کو گلے لگایا، اور ایان نے اپنے نئے دوست کے ساتھ ایک خاص رشتہ محسوس کیا۔
اس دن کے بعد، ایان اکثر جنگل میں پانڈا سے ملنے آیا کرتا تھا، جہاں اس کا دوست ہمیشہ اس کا انتظار کرتا تھا۔ وہ ساتھ کھیلتے اور قدرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے، اور یوں ثابت ہوا کہ حقیقی دوستی ان جگہوں پر بھی مل سکتی ہے جہاں آپ کی توقع نہ ہو۔
دن گزرتے گئے اور ایان اور پانڈا کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ ایان روزانہ جلدی سے اپنے کام نمٹاتا تاکہ وہ جلد از جلد جنگل جا سکے اور اپنے دوست پانڈا سے مل سکے۔ پانڈا ہمیشہ خوشی سے اسے خوش آمدید کہتا، اور دونوں نئے راستے تلاش کرنے اور جنگل کے کونے کونے کی سیر میں مصروف ہو جاتے۔ وہ ہر روز نئی چیزیں دریافت کرتے، کبھی کوئی چھپے ہوئے جھرنے کو ڈھونڈ لیتے، کبھی کسی غار کو، اور کبھی ایسی نایاب پودے دیکھ لیتے جو کسی اور نے نہیں دیکھے تھے۔
ایک دن، جب وہ دونوں ایک نئی جگہ کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے ایک عجیب سی چیز دیکھی۔ ایک درخت کی چھال ہلکی سنہری روشنی سے چمک رہی تھی۔ تجسس میں، ایان اور پانڈا آہستہ سے اس درخت کے قریب پہنچے۔ جیسے ہی انہوں نے درخت کو چھوا، اچانک ایک مدھم سی آواز سنائی دی، “تم دونوں نے سچی دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے صلے میں، میں تمہیں ایک انعام دیتا ہوں۔”
اچانک درخت کھل گیا اور اندر ایک چھوٹا سا صندوق ظاہر ہوا۔ ایان نے جھجکتے ہوئے صندوق کو کھولا تو اندر ایک خوبصورت، چمکتا ہوا کرسٹل تھا۔ درخت کی آواز دوبارہ آئی، “یہ کرسٹل تمہیں کسی بھی فاصلے سے ایک دوسرے سے بات کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ جہاں کہیں بھی تم دونوں ہو، جب تک تم اس کرسٹل کو سنبھالے رکھو گے، تم ہمیشہ ایک دوسرے کو ڈھونڈ سکو گے اور بات کر سکو گے۔”
ایان اور پانڈا حیران رہ گئے۔ یہ جادوئی تحفہ تھا جس نے انہیں یقین دلایا کہ چاہے وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہوں، ان کی دوستی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ایان نے وہ کرسٹل اپنی جیب میں رکھ لیا، اور انہیں یہ احساس ہوا کہ اب ان کا رشتہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔
سال گزرتے گئے اور ایان بڑا ہو گیا، لیکن اس کی پانڈا کے ساتھ دوستی کبھی کمزور نہ ہوئی۔ جب ایان کو اپنی پڑھائی کے لیے ایک قریبی شہر جانا پڑا، تو وہ روزانہ وہ کرسٹل نکال کر پانڈا سے بات کرتا۔ پانڈا، جو اب پہلے سے زیادہ طاقتور اور سمجھدار ہو چکا تھا، ایان کو جنگل کی کہانیاں سناتا، جانوروں کی دنیا کے قصے اور ان کی پرانی مہمات کے قصے۔
کئی سال بعد، جب ایان اپنی تعلیم مکمل کر کے دوبارہ اپنے گاؤں واپس آیا، تو وہ سیدھا جنگل کی طرف دوڑا۔ وہاں، وہ پانڈا کو انتظار کرتے ہوئے پایا، بالکل اسی طرح جیسے پہلے دن ملا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، یہ جانتے ہوئے کہ چاہے کتنا وقت گزر گیا ہو، ان کی دوستی وقت کی ہر آزمائش میں قائم رہی۔
اب ایان اور پانڈا نے اپنی زندگی کی باقی مہمات کا آغاز کیا، وہی پرانے راستے پر، لیکن اس دفعہ زیادہ تجربہ کار اور زیادہ پختہ دوستی کے ساتھ۔ وہ کرسٹل ان کے لیے ہمیشہ کی دوستی کی علامت رہا، جو انہیں یاد دلاتا کہ سچی دوستی کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔
یوں ان کی کہانی گاؤں میں ایک روایت بن گئی—ایک لڑکے اور پانڈا کی کہانی، جن کی دوستی، جنگل کے دل سے پیدا ہوئی، ہمیشہ کے لیے قائم رہی۔